Anisur Rahman

انیس الرحمان

انیس الرحمان کی غزل

    آرزو اور ہوس کا حصہ ہوں

    آرزو اور ہوس کا حصہ ہوں جسم کی لذتوں کا قصہ ہوں ایک کنج فرار میں محفوظ پس دیوار ہوں میں سایہ ہوں شب گزیدہ ادھر سے گزریں گے کاروان سحر کا جادہ ہوں حیرتی میں کہ میرا آئینہ جسم ہوں یا کہ رقص بادہ یوں میری تنہائی مجھ سے کہتی ہے نقش کہنہ پہ نقش تازہ ہوں کیف و کم کے شمار کیا ...

    مزید پڑھیے

    چاک پر کوزہ گر ہے محو سخن

    چاک پر کوزہ گر ہے محو سخن گل کھلے جا رہے ہیں دشت و دمن ہم دریدہ بدن دریدہ بدن اک نئے زاویے پہ نقش کہن شعر و شاعر ہوئے ہیں شیر و شکر کیا بہم ہو گئے زمین و زمن ایک ہیجان نسبتوں میں کہیں ایک ریگ رواں ہے دشت سخن مجھ سے کیا پوچھتی ہے سیرابی کیسے رہتے ہیں لوگ تشنہ دہن تلخ تیزابی ترش ...

    مزید پڑھیے

    جنگ سے آگے اب جدال پہ ہیں

    جنگ سے آگے اب جدال پہ ہیں گو کہ شمشیر احتمال پہ ہیں دیدنی تھے جو دیدنی نہ رہے زخم خوردہ ہیں اندمال پہ ہیں موت یہ زندگی سے کہتی ہے اب گلے مل لو ہم اچھال پہ ہیں کیا یہ آواز اس غنیم کی ہے جس کے مابین جس کی ڈھال پہ ہیں کچھ ہیں طوفان باد و باراں پر اور کچھ باد برشگال پہ ہیں ہم سراپا ...

    مزید پڑھیے

    ہماری بات میں سن ذم کا رمز ہے گا کیا

    ہماری بات میں سن ذم کا رمز ہے گا کیا کسی بھی پیچ کسی خم کا رمز ہے گا کیا وہ دور اور تھا جب تم نے مجھ سے پوچھا تھا محبتوں میں کہیں غم کا رمز ہے گا کیا یہ آب سادہ یہ آب رواں یہ آب ازل اس آب ناب میں زمزم کا رمز ہے گا کیا فلک پہ مہر بھی انجم بھی ابر باراں بھی مگر زمیں پہ جھما جھم کا رمز ...

    مزید پڑھیے

    جو بچ گیا تھا اب تک پندار بیچتے تھے

    جو بچ گیا تھا اب تک پندار بیچتے تھے در کو بچا لیا تھا دیوار بیچتے تھے اک بار ہی نہیں وہ ہر بار بیچتے تھے بیمار تھا میں ان کا آزار بیچتے تھے بازار میرے اندر بازار میرے باہر بازار میں کھڑے تھے بازار بیچتے تھے سب سے بڑی دکاں تھی بازار میں ہماری اپنی دکاں میں ہم تو رفتار بیچتے ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے سارے کرب و بلا لے کے جاؤں گا

    میں اپنے سارے کرب و بلا لے کے جاؤں گا میں جب بھی جاؤں اپنی انا لے کے جاؤں گا آنکھوں کی آبرو کا بھی رکھوں گا میں خیال آنکھوں میں گر خلا ہے خلا لے کے جاؤں گا فرعون وقت سے جو کروں گا مقابلہ میں بھی دعا کروں گا عصا لے کے جاؤں گا سارے سپاہ و تیر و تفنگ و تبر لیے اک کربلائے شوق سوا لے کے ...

    مزید پڑھیے

    ہجر سے بات کی وصال کے بعد

    ہجر سے بات کی وصال کے بعد اب کے آنا تو ماہ و سال کے بعد جیسے آیا تھا ماضی حال کے بعد کیا جنوب آئے گا شمال کے بعد بات سے بات چلتی رہتی ہے ختم ہو جاتی ہے مثال کے بعد اک خموشی حصار کی مانند پہلے اور آخری سوال کے باد ایک سیل ملال ہر جانب اک ملال اور اک ملال کے بعد اک خموشی رواں دواں ...

    مزید پڑھیے

    غم کی اک کیفیت نشاط میں ہو

    غم کی اک کیفیت نشاط میں ہو جو یہی کیفیت حیات میں ہو درد سے ہاتھ پاؤں شل ہو جائیں درد یک گونہ ساری ذات میں ہو پھول پھل سب کے سب فنا ہو جائیں صرف موسیقی ڈال پات میں ہو ہر ستم مجھ پہ میں روا رکھوں میری ہمدردی میری ذات میں ہو ہم بھی ڈالیں کسی پہ ایک نظر کوئی بیٹھا ہماری گھات میں ...

    مزید پڑھیے

    طبیعت میں یہ سرشاری کہاں سے آ گئی ہے

    طبیعت میں یہ سرشاری کہاں سے آ گئی ہے ابھی اچھے تھے بیماری کہاں سے آ گئی ہے کبھی دوگانہ پڑھتے تھے نماز عشق ہم تم اب اس رشتے میں بے گاری کہاں سے آ گئی ہے ذلیل و خوار ناہنجار پیارے کم نصیبو تمہارے سر میں سرداری کہاں سے آ گئی ہے یہ محفل خوب صورت خوب سیرت دوستوں کی یہاں اک شکل سرکاری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2