جو بچ گیا تھا اب تک پندار بیچتے تھے

جو بچ گیا تھا اب تک پندار بیچتے تھے
در کو بچا لیا تھا دیوار بیچتے تھے


اک بار ہی نہیں وہ ہر بار بیچتے تھے
بیمار تھا میں ان کا آزار بیچتے تھے


بازار میرے اندر بازار میرے باہر
بازار میں کھڑے تھے بازار بیچتے تھے


سب سے بڑی دکاں تھی بازار میں ہماری
اپنی دکاں میں ہم تو رفتار بیچتے تھے


دستار بندیوں کے موسم گزر گئے تھے
موسم گزر گئے تھے دستار بیچتے تھے


ملزم بھی اور منصف شاہ و گدا کی خاطر
سرکار ہم بناتے سرکار بیچتے تھے


آثار کا تو بکنا آساں نہیں تھا لیکن
قیمت گھٹا گھٹا کر دشوار بیچتے تھے


بے درد نے چرایا دیوان مصحفیؔ کا
بے چارے مصحفی بھی اشعار بیچتے تھے