غم کی اک کیفیت نشاط میں ہو
غم کی اک کیفیت نشاط میں ہو
جو یہی کیفیت حیات میں ہو
درد سے ہاتھ پاؤں شل ہو جائیں
درد یک گونہ ساری ذات میں ہو
پھول پھل سب کے سب فنا ہو جائیں
صرف موسیقی ڈال پات میں ہو
ہر ستم مجھ پہ میں روا رکھوں
میری ہمدردی میری ذات میں ہو
ہم بھی ڈالیں کسی پہ ایک نظر
کوئی بیٹھا ہماری گھات میں ہو
ایک لمحہ خوشی کا حامل ہو
گرچہ تکرار بات بات میں ہو
تو جو جائے تو اس طرح کہ کبھی
تیرا آنا بھی ممکنات میں ہو