آرزو اور ہوس کا حصہ ہوں

آرزو اور ہوس کا حصہ ہوں
جسم کی لذتوں کا قصہ ہوں


ایک کنج فرار میں محفوظ
پس دیوار ہوں میں سایہ ہوں


شب گزیدہ ادھر سے گزریں گے
کاروان سحر کا جادہ ہوں


حیرتی میں کہ میرا آئینہ
جسم ہوں یا کہ رقص بادہ یوں


میری تنہائی مجھ سے کہتی ہے
نقش کہنہ پہ نقش تازہ ہوں


کیف و کم کے شمار کیا معنی
میں تو منظر ہوں میں تو دیدہ ہوں


مجھ کو مت چاک کر کہ اپنے تئیں
نامۂ دوست ہوں میں گریہ ہوں


میں علوم زماں کا شہزادہ
میں زمیں زاد ابن سینا ہوں


متن و قاری کے درمیاں میں کیا
میں فقط لفظ ہوں کہ معنیٰ ہوں