جنگ سے آگے اب جدال پہ ہیں

جنگ سے آگے اب جدال پہ ہیں
گو کہ شمشیر احتمال پہ ہیں


دیدنی تھے جو دیدنی نہ رہے
زخم خوردہ ہیں اندمال پہ ہیں


موت یہ زندگی سے کہتی ہے
اب گلے مل لو ہم اچھال پہ ہیں


کیا یہ آواز اس غنیم کی ہے
جس کے مابین جس کی ڈھال پہ ہیں


کچھ ہیں طوفان باد و باراں پر
اور کچھ باد برشگال پہ ہیں


ہم سراپا جواب ہیں لیکن
ہم بھی قائم کسی سوال پہ ہیں


بے ستوں آسمان و ابر رواں
منحصر رب ذو الجلال پہ ہیں


کتنی حیرت زدہ ہیں دیواریں
نقش ان کے رخ ملال پہ ہیں


یہ انیسؔ نحیف اور نزار
جو بھی ہیں رشک قیل و قال پہ ہیں