Ali Sajid

علی ساجد

علی ساجد کی غزل

    جب مرے نزدیک سورج میں کمی پیدا ہوئی

    جب مرے نزدیک سورج میں کمی پیدا ہوئی پھر اندھیروں کے شہر میں روشنی پیدا ہوئی جب صدائے کن لگا کر وہ ذرا فارغ ہوا پھر خدا کی شان میں یہ شاعری پیدا ہوئی میں نے لفظوں کو پلائی ہے تری جھوٹی شراب تب کہیں غزلوں میں اپنی چاشنی پیدا ہوئی دو مسافر پھاند بیٹھے اجنبیت کا مزار دیکھتے ہی ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکی سے ذرا جھانک لے اک بار میرے یار

    کھڑکی سے ذرا جھانک لے اک بار میرے یار ہے کون ترے در پہ طلب گار میرے یار اک گیت سر شام لتا جی کی شرن میں اور اس پہ ترے پاؤں کی جھنکار میرے یار ہونٹوں سے گوارا نہیں آنکھوں سے لگا لے ہے ذہنی کشاکش میں تیرا یار میرے یار اک شام ذرا بھر کسی درویش کی جھولی یہ بھی ہیں تری زلف کے حق دار ...

    مزید پڑھیے

    جب عکس مرا شور مچانے میں لگ گیا

    جب عکس مرا شور مچانے میں لگ گیا کمرے سے میں بھی خود کو بھگانے میں لگ گیا الماریوں سے چیخ رہے ہیں تمہارے خط پھر ہوں ہوا میں ان کو جلانے میں لگ گیا اس بار میں نے خواب میں تصویر پھاڑ دی اس بار میں بھی اس کو بھلانے میں لگ گیا اک چوٹ مرے جسم کو کھانے میں لگ گئی اک خواب مری آنکھ چبانے ...

    مزید پڑھیے

    وصل کی رات عجب ہجر مناتا ہوا میں

    وصل کی رات عجب ہجر مناتا ہوا میں مجھ میں آتا ہوا تو تجھ کو بھگاتا ہوا میں ایک تصویر میں آ بیٹھے ہیں دونوں پہلو مجھ سے روٹھا ہوا تو تجھ کو مناتا ہوا میں جانے کس سمت بہا لے گیا مجھ کو پانی تو نے دیکھا ہی نہیں چیختا گاتا ہوا میں روز آ جاتا ہوں صحراؤں سے گھر کی جانب کچھ پرندوں کو سر ...

    مزید پڑھیے

    کب کس کو میسر ہے یہ رتبہ یہ عماری

    کب کس کو میسر ہے یہ رتبہ یہ عماری پھولوں کی کٹوری میں ہے شبنم کی سواری آنکھوں میں جلائے گئے پھر خواب تمہارے سینے سے کھروچی گئی پھر یاد تمہاری اے لاڈلی بچی میری بابا تیرے صدقے سو رنگ مرے گھر میں تو لے کر ہے پدھاری سب علم و ادب لے گیا ساجدؔ کا گھرانا بیٹھے رہے کاسہ لئے مسند پہ ...

    مزید پڑھیے

    کھڑکی سے ذرا جھانک لے اک بار مرے یار

    کھڑکی سے ذرا جھانک لے اک بار مرے یار ہے کون ترے در پہ طلب گار مرے یار اک گیت سر شام لتا جی کی شرن میں اور اس پہ ترے پاؤں کی جھنکار مرے یار ہونٹھوں سے گوارا نہیں آنکھوں سے لگا لے ہے ذہنی کشاکش میں ترا یار مرے یار اک شام ذرا بھر کسی درویش کی جھولی یہ بھی ہیں تری زلف کے حق دار مرے ...

    مزید پڑھیے

    دریدہ دیکھ کر کپڑے ہمارے

    دریدہ دیکھ کر کپڑے ہمارے اداسی نے لیے بوسے ہمارے ہمارا دل نہیں بس سر جھکا تھا ہمکتے رہ گئے سجدے ہمارے پھر اک برپا ہوئی صحرا میں مجلس تبرک میں بٹے کرتے ہمارے تو کیا سوجھی تھی ہم کو خود کشی کی صدا دینے لگے پنکھے ہمارے یقیناً وصل لازم ہو گیا تھا تھے دونوں جسم ہی پیاسے ہمارے

    مزید پڑھیے

    کمرے کی جب سے تیرگی بڑھتی چلی گئی

    کمرے کی جب سے تیرگی بڑھتی چلی گئی زخموں سے اپنی دوستی بڑھتی چلی گئی چاروں طرف سے خود میں لگائی گئی تھی آگ چاروں طرف ہی روشنی بڑھتی چلی گئی میں جتنا تیرے جسم کو پڑھتا چلا گیا خود سے پھر اتنی آگہی بڑھتی چلی گئی ساجدؔ ہمارے گاؤں میں دریا کے باوجود کیا راز ہے جو تشنگی بڑھتی چلی ...

    مزید پڑھیے

    صبا نے کان میں آ کر کہا ملے ہی نہیں

    صبا نے کان میں آ کر کہا ملے ہی نہیں حسین لوگ ترے گاؤں میں رہے ہی نہیں ہمیں کیا علم کہ کیا شے ہے آبلہ پائی ہم اپنے کمرے سے باہر کبھی گئے ہی نہیں ہمیں بچانے پہ راضی تھا اک جہان مگر پھر ایک موڑ وہ آیا کہ ہم بچے ہی نہیں تمام شہر نے مل جل کے کر لئے تقسیم یہ حادثات مرے یار جب ٹلے ہی ...

    مزید پڑھیے

    جب جب اس کو یار منانا پڑتا ہے

    جب جب اس کو یار منانا پڑتا ہے سرخ لبادہ اوڑھ کے جانا پڑتا ہے تم مری سوچوں پر قبضہ رکھتے ہو تم سے مجھ کو عشق نبھانا پڑھتا ہے ہم جیسوں کو وحشت تب اپناتی ہے اک چوکھٹ پہ شیش جھکانا پڑتا ہے وہ جب پھول سے وجد میں جا ٹکراتی ہے پھر گلشن کو ہوش میں لانا پڑھتا ہے اس لڑکی کے ساجدؔ ساجدؔ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2