کب کس کو میسر ہے یہ رتبہ یہ عماری
کب کس کو میسر ہے یہ رتبہ یہ عماری
پھولوں کی کٹوری میں ہے شبنم کی سواری
آنکھوں میں جلائے گئے پھر خواب تمہارے
سینے سے کھروچی گئی پھر یاد تمہاری
اے لاڈلی بچی میری بابا تیرے صدقے
سو رنگ مرے گھر میں تو لے کر ہے پدھاری
سب علم و ادب لے گیا ساجدؔ کا گھرانا
بیٹھے رہے کاسہ لئے مسند پہ بھکاری