دریدہ دیکھ کر کپڑے ہمارے

دریدہ دیکھ کر کپڑے ہمارے
اداسی نے لیے بوسے ہمارے


ہمارا دل نہیں بس سر جھکا تھا
ہمکتے رہ گئے سجدے ہمارے


پھر اک برپا ہوئی صحرا میں مجلس
تبرک میں بٹے کرتے ہمارے


تو کیا سوجھی تھی ہم کو خود کشی کی
صدا دینے لگے پنکھے ہمارے


یقیناً وصل لازم ہو گیا تھا
تھے دونوں جسم ہی پیاسے ہمارے