اختر ضیائی کی غزل

    میں سمجھتا تھا حقیقت آشنا ہو جائے گا

    میں سمجھتا تھا حقیقت آشنا ہو جائے گا کیا خبر تھی میری باتوں سے خفا ہو جائے گا رفتہ رفتہ ابتلائے غم شفا ہو جائے گا درد ہی حد سے گزرنے پر دوا ہو جائے گا ہم پہ تو پہلے ہی ظاہر تھا مآل بندگی پوجنے جاؤ گے جس بت کو خدا ہو جائے گا تجربے کی آنچ سے آخر رقیب رو سیہ ان کی قربت سے ہمارا ہم ...

    مزید پڑھیے

    سامان صد ہزار ہیں تو جاگ تو سہی

    سامان صد ہزار ہیں تو جاگ تو سہی سب وقف انتظار ہیں تو جاگ تو سہی غافل نظر اٹھا کہ وہ آثار صبح نو گردوں پہ آشکار ہیں تو جاگ تو سہی اوقات تیری قوت بازو پہ منحصر لمحات سازگار ہیں تو جاگ تو سہی تیرا یقین تیرا عمل تیرے ولولے ہستی کا اعتبار ہیں تو جاگ تو سہی او محو خواب دیدۂ بینا کے ...

    مزید پڑھیے

    دن ڈھلا شب ہوئی چراغ جلے

    دن ڈھلا شب ہوئی چراغ جلے بزم رنداں میں پھر ایاغ جلے دفعتاً آندھیوں نے رخ بدلا ناگہاں آرزو کے باغ جلے آس ڈوبی تو دل ہوا روشن بجھ گیا دل تو دل کے داغ جلے جل بجھے جستجو کے پروانے مستقل منزل سراغ جلے گاہ مصروفیت سلگ اٹھے گاہ تنہائی و فراغ جلے آنکھیں کرتی ہیں شبنم افشانی جب تری ...

    مزید پڑھیے

    وہ کم نصیب جو عہد جفا میں رہتے ہیں

    وہ کم نصیب جو عہد جفا میں رہتے ہیں عجیب معرض کرب و بلا میں رہتے ہیں نمود ذوق و بلوغ ہنر کا ذکر ہی کیا یہاں یہ لوگ تو آہ و بکا میں رہتے ہیں وداع خلد کے بعد عرصۂ فراق میں ہیں بہ قید جسم دیار فنا میں رہتے ہیں وہ صبح و شام مری روح میں ہیں جلوہ نما دل فگار و الم آشنا میں رہتے ہیں حصار ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے اے زیست ہمیں جتنے حسیں خواب ملے

    تجھ سے اے زیست ہمیں جتنے حسیں خواب ملے نقش بر آب کبھی صورت سیماب ملے ہم نے ہر موج حوادث کو کنارا سمجھا ہم کو ہر موج میں لپٹے ہوئے گرداب ملے گردش وقت نے گہنا دئے کتنے سورج صبح کی گود میں دم توڑتے مہتاب ملے جب بھی صدیوں کی فتوحات کو مڑ کر دیکھا خوں میں لتھڑے ہوئے تاریخ کے ابواب ...

    مزید پڑھیے

    عرفان و آگہی کے سزا وار ہم ہوئے

    عرفان و آگہی کے سزا وار ہم ہوئے سویا پڑا تھا شہر کہ بیدار ہم ہوئے تا عمر انتظار سہی پر بروز حشر اچھا ہوا کہ تیرے طلب گار ہم ہوئے ہم پر وفائے عہد انا الحق بھی فرض تھا اس واسطے کہ محرم اسرار ہم ہوئے ٹھہرے گی ایک دن وہی معراج بندگی جو بات کہہ کے آج گنہ گار ہم ہوئے ہوتے گئے وہ خلق ...

    مزید پڑھیے

    غیر کی بد گمانیوں پہ نہ جا

    غیر کی بد گمانیوں پہ نہ جا بے حقیقت کہانیوں پہ نہ جا کھینچ لیتا ہے دامن احساس پھول کی بے زبانیوں پہ نہ جا اس کی غارت گری کو دھیان میں رکھ عقل کی پاسبانیوں پہ نہ جا صبر کی دوستی کو رکھ ملحوظ جبر کی حکمرانیوں پہ نہ جا خبث باطن کے زہر سے بھی بچ محض شیریں بیانیوں پہ نہ جا مستقل ...

    مزید پڑھیے

    چھپے ہوئے ہیں سر راہ سو خطر خاموش

    چھپے ہوئے ہیں سر راہ سو خطر خاموش چلے چلو میرے یاران ہم سفر خاموش فضائے قریہ طلسم سکوت میں گم صم سیاہ رات کے دامن میں بام و در خاموش ہمارے بعد اگر رستخیز ہو بھی تو کیا بساط وقت سے ہم تو گئے گزر خاموش بہ ایں نوازش موسم شگفت گل پہ نہ جا زبان حال سے گویا بہ چشم تر خاموش جو عرش جاہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی قسمت میں غم عرصۂ ہجراں ہے تو کیا

    اپنی قسمت میں غم عرصۂ ہجراں ہے تو کیا اشک منت کش گہوارۂ مژگاں ہے تو کیا حسن ارباب حقیقت کو ہے ناظورۂ حق شیخ جی آپ کو اندیشۂ ایماں ہے تو کیا وقت کے ساتھ فزوں ہوتا ہے احساس زیاں فہم و ادراک ہی غارت گر انساں ہے تو کیا بے محابانہ مسرت کے تعاقب میں نہ دوڑ دام نیرنگ پس سرحد امکاں ...

    مزید پڑھیے

    دم عیسیٰ ید بیضا کے قرینے والے

    دم عیسیٰ ید بیضا کے قرینے والے اب نہ منصور نہ سقراط سے پینے والے وہی کوفی وہی لشکر وہی پیمان وفا وہی آثار محرم کے مہینے والے دم نکلتا ہے نہ سر جھکتا ہے دیوانوں کا جانے کس آس پہ جیتے ہیں یہ جینے والے یہ جو ساحل کے مناظر ہیں جو آوازیں ہیں جا کے اس پار نہ پائیں گے سفینے والے ہم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2