اپنی قسمت میں غم عرصۂ ہجراں ہے تو کیا

اپنی قسمت میں غم عرصۂ ہجراں ہے تو کیا
اشک منت کش گہوارۂ مژگاں ہے تو کیا


حسن ارباب حقیقت کو ہے ناظورۂ حق
شیخ جی آپ کو اندیشۂ ایماں ہے تو کیا


وقت کے ساتھ فزوں ہوتا ہے احساس زیاں
فہم و ادراک ہی غارت گر انساں ہے تو کیا


بے محابانہ مسرت کے تعاقب میں نہ دوڑ
دام نیرنگ پس سرحد امکاں ہے تو کیا


ہم تو اک عمر سے ہیں منتظر مرگ خزاں
اب کے لوگوں میں اگر ذکر بہاراں ہے تو کیا


موسم آتا ہے تو کانٹوں ہی میں گل کھلتے ہیں
دست گلچیں میں اگر نظم گلستاں ہے تو کیا


زیر تعمیر اسی حال میں ہے مستقبل
اس میں کچھ ریخت کا پہلو بھی نمایاں ہے تو کیا