اختر ضیائی کی غزل

    ملا جو کوئی یہاں رمز آشنا نہ مجھے

    ملا جو کوئی یہاں رمز آشنا نہ مجھے وبال ہوش رہا حرف محرمانہ مجھے اداس پھرتی ہے شاداب وادیوں کی مہک ہے کائنات یہی کنج آشیانہ مجھے عدو کی سنگ زنی کی نہیں مجھے پروا ترے کرم کا میسر ہے شامیانہ مجھے کوئی علاج غم زندگی بتا واعظ سنے ہوئے جو فسانے ہیں پھر سنا نہ مجھے سبک سری میں زمین ...

    مزید پڑھیے

    جفا کی رسم ستم کا رواج بدلے گا

    جفا کی رسم ستم کا رواج بدلے گا فقیہ شہر کا آخر مزاج بدلے گا میں جانتا ہوں بدلتی رتوں کی خوشبو سے ہوائے دشت ترا امتزاج بدلے گا جمود مرگ نمود اصل زندگی ہے تو پھر جو کل نہ بدلا یقیناً وہ آج بدلے گا خلوص و مہر و وفا خواب ہو گئے جیسے نہ جانے کب یہ نحوست کا راج بدلے گا نئے شعور کے ...

    مزید پڑھیے

    عہد وفا کا قرض ادا کر دیا گیا

    عہد وفا کا قرض ادا کر دیا گیا محرومیوں کا درد عطا کر دیا گیا پھولوں کے داغ ہائے فروزاں کو دیکھ کر ارزاں کچھ اور رنگ حنا کر دیا گیا وارفتگان شوق کا شکوہ سنے بغیر گلشن سپرد اہل جفا کر دیا گیا دل سے امنگ لب سے دعا چھین لی گئی کہنے کو قیدیوں کو رہا کر دیا گیا یک دو نفس بھی کار زیاں ...

    مزید پڑھیے

    برق سے آشیاں کا رشتہ ہے

    برق سے آشیاں کا رشتہ ہے عرش سے خاکداں کا رشتہ ہے میرے افسانۂ محبت سے آپ کی داستاں کا رشتہ ہے آج کل ہم جنوں پسندوں سے ہر نئے امتحاں کا رشتہ ہے اہل گلشن کی خستہ حالی سے سازش باغباں کا رشتہ ہے آپ مختار اور ہم مجبور سوچئے تو کہاں کا رشتہ ہے شیخ صاحب کا حور و غلماں سے صرف وہم و ...

    مزید پڑھیے

    جاں رہے یا نہ رہے نام رہے

    جاں رہے یا نہ رہے نام رہے ساتھیو رسم جنوں عام رہے بارہا سعیٔ طلب کی ہم نے یہ الگ بات کہ ناکام رہے عظمت عشق سے ناواقف تھے جو اسیر ہوس خام رہے کیا تعجب ہے کہ پیران حرم مر کے بھی طالب اصنام رہے کیا خبر ہے کہ یوں ہی اے اخترؔ تا بہ کے گردش ایام رہے

    مزید پڑھیے

    آنکھ دریا جگر لہو کرنا

    آنکھ دریا جگر لہو کرنا کتنا مشکل ہے آرزو کرنا تجزیہ دل نشیں خیالوں کا ہے غزالوں کی جستجو کرنا تذکرہ ان کی دل نوازی کا اور پھر میرے روبرو کرنا بس یہی ایک شغل تنہائی رہ گیا خود سے گفتگو کرنا کشتگان الم سے سیکھا ہے درد مندوں کی آبرو کرنا دوستوں کے کرم سے چھوڑ دیا ہم نے اندیشۂ ...

    مزید پڑھیے

    جب بہ فیضان جنوں پرچم زر کھلتے ہیں

    جب بہ فیضان جنوں پرچم زر کھلتے ہیں قفل شب توڑ کے انوار سحر کھلتے ہیں یوں ابھرتی ہے دل تار میں امید کی ضو جیسے زنداں کے کبھی روزن و در کھلتے ہیں غم سے ملتا ہے مری فکر کو اس طرح فراغ جس طرح طائر پر بستہ کے پر کھلتے ہیں ابر برسے تو بیاباں میں مہکتی ہے بہار لاکھ مے خانے سر راہ گزر ...

    مزید پڑھیے

    برش تیغ بھی ہے پھول کی مہکار بھی ہے

    برش تیغ بھی ہے پھول کی مہکار بھی ہے وہ خموشی کہ جو صد موجب اظہار بھی ہے چھوڑیئے ان کے شب و روز کی روداد زبوں آپ کو خاک نشینوں سے سروکار بھی ہے مصلحت مجھ کو بھی ملحوظ ہے اے ہم سخنو پر مرے پیش نظر وقت کی رفتار بھی ہے موت کے خوف سے ہر سانس رکی جاتی ہے زندگی آج کوئی تیرا خریدار بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہم نشیں رات ہے تو رات بھی ڈھل جائے گی

    ہم نشیں رات ہے تو رات بھی ڈھل جائے گی صبح دم صورت حالات بدل جائے گی حدت شوق سلامت ہے تو زنجیر جفا صورت شمع کسی روز پگھل جائے گی ان کا دم بھرتے ہو تو غم نہ کرو آخر کار ان پہ دم دینے کی حسرت بھی نکل جائے گی ہم صفیرو کبھی مٹتی ہے تمنائے بہار یہ کسی پھول کسی شعلے میں ڈھل جائے گی یہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2