کل کی بات لگتی ہے
پیار کی کہانی بھی مختصر جوانی بھی وہ گھڑی سہانی بھی وقت کی روانی بھی کس کے ہات لگتی ہے دشت بحر و بر امبر پھول چشم تر گوہر آئینہ ہو یا پتھر فتنہ سازیٔ منظر واردات لگتی ہے طرف گل کھلے تھے جب زخم ہی سلے تھے جب غم کے سلسلے تھے جب تم کو کچھ گلے تھے جب سب کی مات لگتی ہے اپنی بھول کچھ بھی ...