اختر ضیائی کی نظم

    کل کی بات لگتی ہے

    پیار کی کہانی بھی مختصر جوانی بھی وہ گھڑی سہانی بھی وقت کی روانی بھی کس کے ہات لگتی ہے دشت بحر و بر امبر پھول چشم تر گوہر آئینہ ہو یا پتھر فتنہ سازیٔ منظر واردات لگتی ہے طرف گل کھلے تھے جب زخم ہی سلے تھے جب غم کے سلسلے تھے جب تم کو کچھ گلے تھے جب سب کی مات لگتی ہے اپنی بھول کچھ بھی ...

    مزید پڑھیے

    تیرے بارے میں سوچتا ہوں میں

    تیرے بارے میں سوچتا ہوں میں بعض اوقات جب اکیلے میں اور کوئی نہ پاس بیٹھا ہو تیرے بارے میں سوچتا ہوں میں اور کئی بار اور لوگوں کی بھیڑ کے باوجود جان وفا مجھ کو تیرا خیال آتا ہے در حقیقت گداز الفت میں انتہائے فشار حسرت میں شدت سوز و ساز فرقت میں جب مرا جی اداس ہوتا ہے وقف حرمان ...

    مزید پڑھیے

    آئینہ دیکھتا ہوں

    میں جب کبھی دو گھڑی غور سے آئینہ دیکھتا ہوں تو ماضی کے الجھے ہوئے روز و شب کی شناسا لکیروں میں دھندلی تصاویر ماحول سے بے خبر بولتی ہیں کہ جیسے کسی اجنبی شخص کی زندگی کی حسیں ساعتوں دل ربا حسرتوں اور امنگوں کے کوہ ندا کے طلسمات خفتہ کے در کھولتی ہیں میں حیران سا دیر تک سوچتا ...

    مزید پڑھیے

    غم کا آہنگ ہے

    غم کا آہنگ ہے اس شام کی تنہائی میں دام نیرنگ ہے آغاز کا انجام لیے کوئی نغمہ کوئی خوشبو نہیں پروائی میں دل کے آئینے میں اور روح کی گہرائی میں ایک ہی عکس کئی نام لیے رقص میں ہے پرتو حسن دلآرام لیے پھر ترے دھیان میں بیٹھا ہوں تہی جام لیے حسرت سعی طلب بے سر و سامان بھی ہے سخت ہیجان بھی ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہی شب کے سرابوں کا چلن!

    پھر وہی خواب نما شب کے سرابوں کا چلن جاری ہے شب کہ اس بار صفیران چمن اور بھی کچھ بھاری ہے گل پہ شبنم پہ عنادل پہ صبا اور ہوا سب پہ وہی سحر الم طاری ہے پھر اسی طرز کہن میں نیا انداز فسوں کاری ہے سخت مشکل میں ہیں اے جان وفا ارض وطن حرف مقصود رقیبوں کو گوارہ بھی نہیں کیا کریں صبر کا ...

    مزید پڑھیے