دم عیسیٰ ید بیضا کے قرینے والے
دم عیسیٰ ید بیضا کے قرینے والے
اب نہ منصور نہ سقراط سے پینے والے
وہی کوفی وہی لشکر وہی پیمان وفا
وہی آثار محرم کے مہینے والے
دم نکلتا ہے نہ سر جھکتا ہے دیوانوں کا
جانے کس آس پہ جیتے ہیں یہ جینے والے
یہ جو ساحل کے مناظر ہیں جو آوازیں ہیں
جا کے اس پار نہ پائیں گے سفینے والے
ہم محبت کی علامت ہیں جناب واعظ
ہم عداوت کے طلب گار نہ کینے والے
ایک پیغام ہو شاید مری خاموشی بھی
تجھ کو معلوم نہیں لب مرے سینے والے
آج کچھ لوگ ہیں صورت گر حالات اخترؔ
اور کچھ لوگ ہیں ماضی کے دفینے والے
ان کو تھوڑی سی اخوت بھی عطا ہو جائے
یہ جو لیتے ہیں ترا نام مدینے والے