سامان صد ہزار ہیں تو جاگ تو سہی
سامان صد ہزار ہیں تو جاگ تو سہی
سب وقف انتظار ہیں تو جاگ تو سہی
غافل نظر اٹھا کہ وہ آثار صبح نو
گردوں پہ آشکار ہیں تو جاگ تو سہی
اوقات تیری قوت بازو پہ منحصر
لمحات سازگار ہیں تو جاگ تو سہی
تیرا یقین تیرا عمل تیرے ولولے
ہستی کا اعتبار ہیں تو جاگ تو سہی
او محو خواب دیدۂ بینا کے واسطے
خود جلوے بے قرار ہیں تو جاگ تو سہی
بے برگ بے لباس درختوں کی ٹہنیاں
پیغام نو بہار ہیں تو جاگ تو سہی
اخترؔ ضیائی نیند کے ماتوں کے شہر میں
کچھ لوگ ہوشیار ہیں تو جاگ تو سہی