میں سمجھتا تھا حقیقت آشنا ہو جائے گا
میں سمجھتا تھا حقیقت آشنا ہو جائے گا
کیا خبر تھی میری باتوں سے خفا ہو جائے گا
رفتہ رفتہ ابتلائے غم شفا ہو جائے گا
درد ہی حد سے گزرنے پر دوا ہو جائے گا
ہم پہ تو پہلے ہی ظاہر تھا مآل بندگی
پوجنے جاؤ گے جس بت کو خدا ہو جائے گا
تجربے کی آنچ سے آخر رقیب رو سیہ
ان کی قربت سے ہمارا ہم نوا ہو جائے گا
آہ جو سینے سے نکلے گی فغاں بن جائے گی
اشک جو آنکھوں سے ٹپکے گا دعا بن جائے گا
دم بدم جو ساتھ دینے کا کیا کرتا تھا عہد
کس کو تھا معلوم کہ اک دن جدا ہو جائے گا
چھوڑنے والے سر راہے ہمیں تیرے لیے
زندگانی کا سفر بے مدعا ہو جائے گا
اک نگاہ لطف وہ پہلی سی دل داری کے ساتھ
دان کر دیجے غریبوں کا بھلا ہو جائے گا
سہل تر ہوگا نجات خلق میں قرض وفا
جان بھی دے گا اگر اخترؔ ادا ہو جائے گا