وہ کم نصیب جو عہد جفا میں رہتے ہیں
وہ کم نصیب جو عہد جفا میں رہتے ہیں
عجیب معرض کرب و بلا میں رہتے ہیں
نمود ذوق و بلوغ ہنر کا ذکر ہی کیا
یہاں یہ لوگ تو آہ و بکا میں رہتے ہیں
وداع خلد کے بعد عرصۂ فراق میں ہیں
بہ قید جسم دیار فنا میں رہتے ہیں
وہ صبح و شام مری روح میں ہیں جلوہ نما
دل فگار و الم آشنا میں رہتے ہیں
حصار ذات میں محبوس ہو کے اہل ہوس
فریب حاصل بے مدعا میں رہتے ہیں
بھلا چکے ہیں زمین و زماں کے سب قصے
سخن طراز ہیں لیکن خلا میں رہتے ہیں
امیر شہر کی صحبت کے فیض سے اخترؔ
جناب شیخ اب اونچی ہوا میں رہتے ہیں