تجھ سے اے زیست ہمیں جتنے حسیں خواب ملے

تجھ سے اے زیست ہمیں جتنے حسیں خواب ملے
نقش بر آب کبھی صورت سیماب ملے


ہم نے ہر موج حوادث کو کنارا سمجھا
ہم کو ہر موج میں لپٹے ہوئے گرداب ملے


گردش وقت نے گہنا دئے کتنے سورج
صبح کی گود میں دم توڑتے مہتاب ملے


جب بھی صدیوں کی فتوحات کو مڑ کر دیکھا
خوں میں لتھڑے ہوئے تاریخ کے ابواب ملے


سیل ظلمات میں ہے قافلۂ منزل شب
کاش ایسے میں کوئی نجم افق تاب ملے


اہل کردار کو دیکھا ہے سر دار اکثر
اہل گفتار تہ سایۂ محراب ملے


فصل گل آئی ہے یارو تو غنیمت جانو
پھول افسردہ سہی زخم تو شاداب ملے


دل کے ہر داغ سے وابستہ ہے روداد ستم
رنج بڑھتا گیا جوں جوں مجھے احباب ملے


مجھ کو اخترؔ نہ ملی نالۂ شب گیر کی داد
قریۂ شوق کے سب لوگ گراں خواب ملے