عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو
عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو جنس بازار میں لے جائیں خریدار تو ہو ہجر کے سوختہ جاں اور جلیں گے کتنے طور پر بیٹھے ہیں کب سے ترا دیدار تو ہو شدت درد دو پل کے لیے کم ہوتا کہ غم کے الفاظ کے سنگار میں اظہار تو ہو کب سے امید لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ہم نے سہی گر نہیں اقرار سو انکار تو ...