Akhtar Saeed

اختر سعید

اختر سعید کی غزل

    عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو

    عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو جنس بازار میں لے جائیں خریدار تو ہو ہجر کے سوختہ جاں اور جلیں گے کتنے طور پر بیٹھے ہیں کب سے ترا دیدار تو ہو شدت درد دو پل کے لیے کم ہوتا کہ غم کے الفاظ کے سنگار میں اظہار تو ہو کب سے امید لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ہم نے سہی گر نہیں اقرار سو انکار تو ...

    مزید پڑھیے

    ہر گھڑی فکر راستی کیا ہے

    ہر گھڑی فکر راستی کیا ہے اک مصیبت ہے زندگی کیا ہے گھپ اندھیرا ہے میرے چاروں اور اس میں تھوڑی سی روشنی کیا ہے بہت الجھا ہوا حساب ہے یہ میرا کھاتا ہے کیا بہی کیا ہے نام ہیں نفس کی پرستش کے دوستی کیا ہے دشمنی کیا ہے شہر میں رہ کے دیکھیے اک دن دور جنگل میں راہبی کیا ہے ساری باتوں ...

    مزید پڑھیے

    خالی ہے ذہن طاقت گفتار کیا کرے

    خالی ہے ذہن طاقت گفتار کیا کرے ہے آنکھ بند روزن دیوار کیا کرے ہم عقل دل کے سامنے رکھتے رہے ولے دریا کے آگے ریت کی دیوار کیا کرے جی میرا اب تو میری بھی صحبت سے تنگ ہے ہر رشتہ یاں ہے باعث آزار کیا کرے ہر سو ہے کائنات میں اپنے لہو کا رنگ ہو چشم دل سے دور تو دیدار کیا کرے کہتا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    خود سے کتنا کیا دغا میں نے

    خود سے کتنا کیا دغا میں نے ابھی سیکھی نہیں وفا میں نے نکلا چوہا پہاڑ کو کھودا جو کیا جو کہا سنا میں نے کھولیے کیوں دکھوں کے دفتر کو سوچنا بند کر دیا میں نے ہاں لگایا ہے ذکر عظمت پر زور سے ایک قہقہہ میں نے حاصل زیست ہے کہ دیکھا ہے سنبل و سبزہ و صبا میں نے زندگی زہر تھا اسے ...

    مزید پڑھیے

    دل کے رہنے کے لیے شہر خیالات نہیں

    دل کے رہنے کے لیے شہر خیالات نہیں سر بہ سر ہے نفی اس میں کہیں اثبات نہیں رنج گر واں سے تو راحت بھی وہیں سے آوے کون کہتا ہے یہاں وحدت آیات نہیں مجھ سے کہتے ہیں حوائج سے سروکار نہ رکھ میری تعریف بجز قصۂ حاجات نہیں کوئی بتلاؤ شب و روز پہ کیا گزری ہے رات خاموش نہیں دن میں کوئی بات ...

    مزید پڑھیے

    اردی و دے سے پرے سود و زیاں سے آگے

    اردی و دے سے پرے سود و زیاں سے آگے آؤ چل نکلیں کہیں قید زماں سے آگے اس خرابے میں عبث ہیں غم و شادی دونوں میری تسکین کا مسکن ہے مکاں سے آگے آہ و نالہ ہی سہی اہل وفا کا مسلک اک مقام اور بھی آتا ہے فغاں سے آگے دار تک صاف نظر آتا ہے رشتہ دیکھیں پھر کدھر جاتے ہیں عشاق وہاں سے آگے خون ...

    مزید پڑھیے

    پھر صبا گزری ہے در‌ صحن چمن کیا کہنا

    پھر صبا گزری ہے در‌ صحن چمن کیا کہنا اب تلک کانپتے ہیں سرو و سمن کیا کہنا ذرۂ خاک ہوں میں سیل حوادث کے لیے اور اس ذرے میں دل شاہ زمن کیا کہنا جسم کے حکم سے آزاد ہو جاں چاہا تھا روح کے حکم سے آزاد ہے تن کیا کہنا شہر ویران ہوا گور غریباں کی طرح اس پہ میں اور مری رنگینئ فن کیا ...

    مزید پڑھیے

    دور ہے با حضور لگتا ہے

    دور ہے با حضور لگتا ہے گو ہے مستور عور لگتا ہے آب و نان و ہوا نہیں کافی تیرے دل میں فتور لگتا ہے جا رہے ہو خدا کے گھر یعنی وہ تمہیں خود سے دور لگتا ہے گرچہ ہرگز مرا قصور نہیں پھر بھی میرا قصور لگتا ہے ایک عالم پہ بھی نہیں راضی یہ دل ناصبور لگتا ہے ذہن آزاد فکر ہستی ہے جو گنا کا ...

    مزید پڑھیے

    دل سے ارماں نکل رہے ہیں

    دل سے ارماں نکل رہے ہیں میرے بھی دن بدل رہے ہیں ورنہ گھر میں ہے گھپ اندھیرا یادوں کے چراغ جل رہے ہیں یہ عجب لوگ ہیں کہ ان کے پاؤں نہیں پہ چل رہے ہیں ہم در شاہ پر سوالی آج ہیں اور نہ کل رہے ہیں وہ ہی پہنچیں گے یار تک جو گرتے گرتے سنبھل رہے ہیں ہم نکو نام تو ہوئے پر دل پہ آرے سے چل ...

    مزید پڑھیے

    درد اک روز کوئی رنگ دکھائے تو بنے

    درد اک روز کوئی رنگ دکھائے تو بنے روح گر چھوڑ کے تن دہر میں آئے تو بنے نظر آئیں ترے چہرے کے خد و خال تمام دل سے اٹھ جائیں کبھی وہم کے سائے تو بنے وحدت درد ہو قریوں میں ہوا کی مانند ایک ہو جائیں اگر اپنے پرائے تو بنے واعظاں مژدہ کہ جنت میں بہار آئی ہے میری دنیا سے خزاں لوٹ کے جائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2