دل کے رہنے کے لیے شہر خیالات نہیں
دل کے رہنے کے لیے شہر خیالات نہیں
سر بہ سر ہے نفی اس میں کہیں اثبات نہیں
رنج گر واں سے تو راحت بھی وہیں سے آوے
کون کہتا ہے یہاں وحدت آیات نہیں
مجھ سے کہتے ہیں حوائج سے سروکار نہ رکھ
میری تعریف بجز قصۂ حاجات نہیں
کوئی بتلاؤ شب و روز پہ کیا گزری ہے
رات خاموش نہیں دن میں کوئی بات نہیں
تھی فلاطوں کی جو جمہور سے رو گردانی
ہم سمجھتے تھے خرافات خرافات نہیں
دل سے گزرے کبھی دشمن کے لیے فکر ضرر
وہ وطیرہ نہیں میرا مرے جذبات نہیں
عہد بے مہر میں اک چال محبت بھی چلے
شہہ میں بازی ہے مری گرچہ ابھی مات نہیں
صاحبا دیکھنا حد سے نہ بڑھے یورش غم
ناتواں دل ہے مرا خیمۂ سادات نہیں