دل سے ارماں نکل رہے ہیں

دل سے ارماں نکل رہے ہیں
میرے بھی دن بدل رہے ہیں


ورنہ گھر میں ہے گھپ اندھیرا
یادوں کے چراغ جل رہے ہیں


یہ عجب لوگ ہیں کہ ان کے
پاؤں نہیں پہ چل رہے ہیں


ہم در شاہ پر سوالی
آج ہیں اور نہ کل رہے ہیں


وہ ہی پہنچیں گے یار تک جو
گرتے گرتے سنبھل رہے ہیں


ہم نکو نام تو ہوئے پر
دل پہ آرے سے چل رہے ہیں


ان کو آزاد کر جو اب تک
زیر حبس علل رہے ہیں


ان کو محبوس کر جو کب سے
قاعدے سب کچل رہے ہیں


کہہ نہ کرب و بلا کا قصہ
لفظوں کے دل دہل رہے ہیں