خالی ہے ذہن طاقت گفتار کیا کرے
خالی ہے ذہن طاقت گفتار کیا کرے
ہے آنکھ بند روزن دیوار کیا کرے
ہم عقل دل کے سامنے رکھتے رہے ولے
دریا کے آگے ریت کی دیوار کیا کرے
جی میرا اب تو میری بھی صحبت سے تنگ ہے
ہر رشتہ یاں ہے باعث آزار کیا کرے
ہر سو ہے کائنات میں اپنے لہو کا رنگ
ہو چشم دل سے دور تو دیدار کیا کرے
کہتا ہوں بار بار سمجھتا نہیں کوئی
بہرا ہو دل تو بات پہ اصرار کیا کرے
جز تیغ درد جاں کا نہیں کوئی شے علاج
خالی ہے ہاتھ دیدۂ خوں بار کیا کرے
ہر فلسفے سے شوق ہے آزاد سر بہ سر
اقرار کیا کرے یہاں انکار کیا کرے
الجھے ہوئے ہیں کتنے تمنا کے سلسلے
اے خالق حیات گناہ گار کیا کرے
راہ نبی میں بچے جواں پیر سب گئے
خیمے میں تنہا عابد بیمار کیا کرے