خود سے کتنا کیا دغا میں نے

خود سے کتنا کیا دغا میں نے
ابھی سیکھی نہیں وفا میں نے


نکلا چوہا پہاڑ کو کھودا
جو کیا جو کہا سنا میں نے


کھولیے کیوں دکھوں کے دفتر کو
سوچنا بند کر دیا میں نے


ہاں لگایا ہے ذکر عظمت پر
زور سے ایک قہقہہ میں نے


حاصل زیست ہے کہ دیکھا ہے
سنبل و سبزہ و صبا میں نے


زندگی زہر تھا اسے سقراط
جرعہ جرعہ مگر پیا میں نے


چھپ کے بیٹھا ہوں شرمساری سے
کعبے سے دور لی ہے جا میں نے


یہ تو تذلیل ہے شہادت کی
کبھی مانگا نہ خوں بہا میں نے


جب بڑھی اور شرم عریانی
اوڑھ لی خاک کی قبا میں نے


اپنے دل کو تو سی نہیں سکتا
اپنے ہونٹوں کو سی لیا میں نے


خوف سے بھاگ نکلا مجلس سے
جب سنا ذکر کربلا میں نے