ہر گھڑی فکر راستی کیا ہے

ہر گھڑی فکر راستی کیا ہے
اک مصیبت ہے زندگی کیا ہے


گھپ اندھیرا ہے میرے چاروں اور
اس میں تھوڑی سی روشنی کیا ہے


بہت الجھا ہوا حساب ہے یہ
میرا کھاتا ہے کیا بہی کیا ہے


نام ہیں نفس کی پرستش کے
دوستی کیا ہے دشمنی کیا ہے


شہر میں رہ کے دیکھیے اک دن
دور جنگل میں راہبی کیا ہے


ساری باتوں کا میں مصنف ہوں
میرے آگے لکھی سنی کیا ہے


میں نے دیکھا ہے خوں کی شمعوں سے
گم رہی کیا ہے رہروی کیا ہے


عہد پیری میں اپنی لوح ضمیر
صاف ہو گر تو خسروی کیا ہے


یہ تضادات یہ سراب یہ دل
زندگی کیا ہے آدمی کیا ہے


بند اشکال میں مقید ہوں
عقل کس کام آگہی کیا ہے


سوچتا ہوں تو کچھ نہیں کھلتا
جانتا ہوں مگر بدی کیا ہے


دل میں وسواس یا علیؑ کیوں ہے
سر محجوب یا نبی کیا ہے