اردی و دے سے پرے سود و زیاں سے آگے

اردی و دے سے پرے سود و زیاں سے آگے
آؤ چل نکلیں کہیں قید زماں سے آگے


اس خرابے میں عبث ہیں غم و شادی دونوں
میری تسکین کا مسکن ہے مکاں سے آگے


آہ و نالہ ہی سہی اہل وفا کا مسلک
اک مقام اور بھی آتا ہے فغاں سے آگے


دار تک صاف نظر آتا ہے رشتہ دیکھیں
پھر کدھر جاتے ہیں عشاق وہاں سے آگے


خون آلودہ کفن شارح صد دفتر دل
طرز اظہار ہے اک اور زباں سے آگے


فکر مفلوج جو زندانئ افلاک رہے
تیر بیکار جو نکلے نہ کماں سے آگے


تھی بہت خانہ خرابی کو ہماری یہ عمر
اک جہاں اور بھی سنتے ہیں یہاں سے آگے


میں کہ ہوں حاضر و موجود کے وسواس میں قید
تو کہ ہے پردہ نشیں وہم و گماں سے آگے