دور ہے با حضور لگتا ہے

دور ہے با حضور لگتا ہے
گو ہے مستور عور لگتا ہے


آب و نان و ہوا نہیں کافی
تیرے دل میں فتور لگتا ہے


جا رہے ہو خدا کے گھر یعنی
وہ تمہیں خود سے دور لگتا ہے


گرچہ ہرگز مرا قصور نہیں
پھر بھی میرا قصور لگتا ہے


ایک عالم پہ بھی نہیں راضی
یہ دل ناصبور لگتا ہے


ذہن آزاد فکر ہستی ہے
جو گنا کا تنور لگتا ہے


ایک مٹی کا ڈھیر ہے وہ تو
جو تمہیں کوہ طور لگتا ہے


روز ہوتا ہوں ہم کلام اس سے
روز یوم نشور لگتا ہے


خود پھنساتے ہو خود چھڑاتے ہو
کھیل کوئی حضور لگتا ہے