عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو
عشق کا شور کریں کوئی طلب گار تو ہو
جنس بازار میں لے جائیں خریدار تو ہو
ہجر کے سوختہ جاں اور جلیں گے کتنے
طور پر بیٹھے ہیں کب سے ترا دیدار تو ہو
شدت درد دو پل کے لیے کم ہوتا کہ
غم کے الفاظ کے سنگار میں اظہار تو ہو
کب سے امید لگائے ہوئے بیٹھے ہیں ہم
نے سہی گر نہیں اقرار سو انکار تو ہو
کفر احرام کے پردے میں چھپا دیکھا ہے
ایک عالم ہے اگر درپئے زنار تو ہو
ہم نے مانا کہ شرافت ہے بڑی چیز مگر
کچھ زمانے کو شرافت سے سروکار تو ہو
خانۂ دل میں نہیں ایک کرن کا بھی گزر
ساری دنیا ہے اگر مطلع انوار تو ہو
رازداری ہی میں ہوتا ہے شریفوں کا حساب
تجھ کو منظور ہے گر بر سر بازار تو ہو