Ahmad Fakhir

احمد فاخر

احمد فاخر کی غزل

    سیاہ رات پشیماں ہے ہم رکابی سے

    سیاہ رات پشیماں ہے ہم رکابی سے وہ روشنی ہے ترے غم کی ماہتابی سے صبا کے ہاتھ ہے اب عزت نگاہ مری چمن مہکنے لگا گل کی بے حجابی سے فرار ان سے ہے مشکل وہ دسترس میں نہیں یہ زرد زرد سے موسم وہ دن گلابی سے لہو لہو نظر آتی ہے شاخ گل مجھ کو کھلے وہ پھول تری تازہ انقلابی سے عجب نہیں ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    اے شوق دل بھی ایک معما عجیب ہے

    اے شوق دل بھی ایک معما عجیب ہے صحرا کو آندھیوں کی تمنا عجیب ہے موجوں کے اضطراب نے دھڑکا دیا تھا دل اترے جو ہم اتر گیا دریا عجیب ہے دشوار ہو گئی ہے اب اپنی شناخت بھی آئینہ کہہ رہا ہے کہ چہرہ عجیب ہے شاخیں جو میرے صحن میں ہیں ان میں پھل نہ آئے ہم سائے کا درخت بھی کتنا عجیب ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں کیا یہ جہان گزراں لگتا ہے

    کیا کہیں کیا یہ جہان گزراں لگتا ہے گل کا ہنسنا بھی طبیعت پہ گراں لگتا ہے اس جہاں سے بھی تو اک روز نکلنا ہوگا یہ جہاں بھی تو کرائے کا مکاں لگتا ہے اشک غم آنکھ میں آ جاتے ہیں روکیں کیسے آگ جلتی ہے تو آنکھوں میں دھواں لگتا ہے جانے کیا میری سماعت کو ہوا ہے فاخرؔ نغمۂ عیش بھی سنئے ...

    مزید پڑھیے

    کیا دن تھے گلابوں سے شناسائی تھی اپنی

    کیا دن تھے گلابوں سے شناسائی تھی اپنی آتش کا جواں ہونا بھی رسوائی تھی اپنی مہتاب کی سانسوں میں توازن نہ رہا تھا اس چاند نے اک رات جو چمکائی تھی اپنی یہ عشق تو لگتا ہے کہ آسیب ہے کوئی ہم نے تو طبیعت ذرا بہلائی تھی اپنی اب ڈھونڈ کے لائے کوئی اور آئنہ جس میں صورت ہمیں اک روز نظر ...

    مزید پڑھیے

    جلتا رہا چراغ یقین و گمان کا

    جلتا رہا چراغ یقین و گمان کا لیکن ہوا نہ دور اندھیرا مکان کا گندم کی بالیوں سے بہت روشنی ہوئی اس روشنی سے قرض نہ اترا کسان کا آنچل کسی کا تیز ہوا نے اڑا دیا کشتی سے رابطہ نہ رہا بادبان کا زخم نوازشات مہکتا رہا سدا دیکھا کوئی گلاب نہ اس آن بان کا فاخرؔ جمی ہوئی ہے ابھی تک وہیں ...

    مزید پڑھیے

    موسم تو بدلتا ہے بدل جائے تو کیا ہو

    موسم تو بدلتا ہے بدل جائے تو کیا ہو پھولوں سے جو خوشبو بھی نکل جائے تو کیا ہو جاتا ہوں کڑی دھوپ میں پرچھائیں کے ہم راہ صحرا میں یہ پرچھائیں بھی جل جائے تو کیا ہو یہ مشورۂ ضبط بھی تسلیم ہے لیکن آنسو مری آنکھوں سے نکل جائے تو کیا ہو مہتاب سہارا ہے شب زیست کا فاخرؔ یہ زرد سا مہتاب ...

    مزید پڑھیے

    سوچتا ہوں یہاں کس سے ہے شناسائی مری

    سوچتا ہوں یہاں کس سے ہے شناسائی مری وہی ویراں سا مکاں ہے وہی تنہائی مری جس کی زلفوں میں لگایا ہے محبت کا گلاب کاغذی پھولوں سے کرتا ہے پذیرائی مری اس دریچے میں نہیں دیکھنے والا کوئی وہ تماشا ہوں کہ ہے خلق تماشائی مری بند غم ٹوٹ کے اشعار میں بہہ نکلا ہے قریے قریے میں ہوئی جاتی ...

    مزید پڑھیے

    سینے میں دل جو درد کا مارا نہیں ملا

    سینے میں دل جو درد کا مارا نہیں ملا پھر آئنے میں عکس ہمارا نہیں ملا میلے میں آ گئے تھے کہ شاید کوئی ملے اس بھیڑ میں بھی کوئی ہمارا نہیں ملا ہر چند اک ہجوم تھا آنکھوں کا ہر طرف لیکن کسی نظر کا سہارا نہیں ملا کشتی تو ڈوبنے کے لئے بے قرار تھی کشتی کو ڈوبنے کا اشارہ نہیں ملا

    مزید پڑھیے

    کم نگاہی بھی ہے خاموشی بھی روپوشی بھی

    کم نگاہی بھی ہے خاموشی بھی روپوشی بھی کتنی معصوم ہے احسان فراموشی بھی ہم سفر تو جو نہیں ہے تو یہ دھڑکا ہے ہمیں تھک نہ جائے کہیں رستے میں وفا کوشی بھی اب تو ہی رکھنا مرے پیراہن غم کا خیال ہوش کی طرح سے رسوا نہ ہو بے ہوشی بھی گھر میں رہئے تو سوا ہوتی ہے وحشت فاخرؔ چیخنے لگتی ہے ...

    مزید پڑھیے

    اک عمر سے جس کو لئے پھرتا ہوں نظر میں

    اک عمر سے جس کو لئے پھرتا ہوں نظر میں وہ روپ ہے سورج میں نہ وہ رنگ سحر میں چلتی ہیں ہوائیں تو برس جاتی ہیں آنکھیں چھائے ہیں تری یاد کے بادل مرے گھر میں حیراں ہوئے جاتے ہیں مجھے دیکھنے والے آئینہ معلق ہے مرے دیدۂ تر میں اک چاند کو چھونے کی تمنا میں ہوں پاگل بادل سا اڑا جاتا ہوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2