جلتا رہا چراغ یقین و گمان کا

جلتا رہا چراغ یقین و گمان کا
لیکن ہوا نہ دور اندھیرا مکان کا


گندم کی بالیوں سے بہت روشنی ہوئی
اس روشنی سے قرض نہ اترا کسان کا


آنچل کسی کا تیز ہوا نے اڑا دیا
کشتی سے رابطہ نہ رہا بادبان کا


زخم نوازشات مہکتا رہا سدا
دیکھا کوئی گلاب نہ اس آن بان کا


فاخرؔ جمی ہوئی ہے ابھی تک وہیں نگاہ
ملبہ پڑا ہوا ہے جہاں اس مکان کا