سوچتا ہوں یہاں کس سے ہے شناسائی مری
سوچتا ہوں یہاں کس سے ہے شناسائی مری
وہی ویراں سا مکاں ہے وہی تنہائی مری
جس کی زلفوں میں لگایا ہے محبت کا گلاب
کاغذی پھولوں سے کرتا ہے پذیرائی مری
اس دریچے میں نہیں دیکھنے والا کوئی
وہ تماشا ہوں کہ ہے خلق تماشائی مری
بند غم ٹوٹ کے اشعار میں بہہ نکلا ہے
قریے قریے میں ہوئی جاتی ہے رسوائی مری
دل کے فانوس میں جل اٹھتی ہیں شمعیں فاخرؔ
درد آتا ہے جو کرنے کی پذیرائی مری