Ahmad Fakhir

احمد فاخر

احمد فاخر کی غزل

    مسافت شب ہجراں طویل لکھتے رہے

    مسافت شب ہجراں طویل لکھتے رہے ملے جو درد انہیں سنگ میل لکھتے رہے حکایتیں ہی نہیں لکھیں آگ کی ہم نے حقیقتیں بھی برنگ خلیل لکھتے رہے جو قلب و جاں میں ہے خوشبو کسی کی زلفوں کی اسی کو اپنی متاع جلیل لکھتے رہے رہی یہ آس کہ سیراب ہوگی کشت حیات سو جوہڑوں کو بھی دریائے نیل لکھتے ...

    مزید پڑھیے

    مری حیات کے صحرا میں چھاؤں جیسا تھا

    مری حیات کے صحرا میں چھاؤں جیسا تھا عجیب شخص تھا ٹھنڈی ہواؤں جیسا تھا کھلا ہی رہتا تھا ہر دم گلاب کی صورت مزاج اس کا چمن کی فضاؤں جیسا تھا اسی زمانے میں رہتا ہوں ہر زمانے میں وہ جب بدن پہ گلوں کی قباؤں جیسا تھا یہ اس کی یاد تپاں کیوں ہے دھوپ سی فاخرؔ وہ بے وفا تو برستی گھٹاؤں ...

    مزید پڑھیے

    چاندنی جس کی در جاں پہ ہم اکثر دیکھیں

    چاندنی جس کی در جاں پہ ہم اکثر دیکھیں کبھی اس چاند کو بھی ہاتھ سے چھو کر دیکھیں کیسے بھر لیں در و دیوار پہ آویزاں ہیں جس طرف دیکھیں تری یاد کا منظر دیکھیں کبھی بارش کی بھی راتوں میں نہ چمکی بجلی یہی ارمان رہا گھر کو منور دیکھیں آنکھ کھل جائے تو صحرا کی زمیں پر ہوں قدم نیند آ ...

    مزید پڑھیے

    جس شخص کو دیکھو وہی سرگرم سفر ہے

    جس شخص کو دیکھو وہی سرگرم سفر ہے دنیا کہیں ویران نہ ہو جائے یہ ڈر ہے لائے گی کبھی رنگ ہواؤں کی محبت ہم جس میں بسر کرتے ہیں وہ ریت کا گھر ہے صحرا میں کسی سائے کی امید نہ ٹوٹی حسرت کی نگاہوں میں بگولا بھی شجر ہے نکلی ہے گمانوں سے یہی شکل یقیں کی جس سمت اڑے گرد وہی راہ گزر ہے مہتاب ...

    مزید پڑھیے

    اک ہم ہیں گلا کرنے کی ہمت نہیں کرتے

    اک ہم ہیں گلا کرنے کی ہمت نہیں کرتے اک تم ہو کہ خوابوں کو حقیقت نہیں کرتے جاؤ تو مگر عکس کوئی چھوڑ نہ جانا اب آئنے عکسوں کی حفاظت نہیں کرتے اب چاند کا ارماں بھی سر شام نہیں ہے آنکھوں کے جھروکے بھی شکایت نہیں کرتے ہم دھوپ سے نرمی کی امیدیں ہی رکھے جائیں ہر چند کہ سائے بھی مروت ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں اس کی ڈوب کے ابھرا نہیں ہوں میں

    آنکھوں میں اس کی ڈوب کے ابھرا نہیں ہوں میں جس نے بھلا دیا اسے بھولا نہیں ہوں میں اب لمحہ لمحہ اپنے بکھرنے کا خوف ہے غنچے کی طرح بند ہوں کھلتا نہیں ہوں میں پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پرچھائیں بھی نہ تھی سوچا تھا راہ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں یہ سوچتا ہوں کیسے رہوں گا تمہارے ساتھ اکثر ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں کا بھی ہم سے کبھی پردہ نہیں رکھا

    آنکھوں کا بھی ہم سے کبھی پردہ نہیں رکھا ملنے کا بھی لیکن کوئی رستہ نہیں رکھا وہ زخم دیے باد صبا نے کہ شجر نے پتہ بھی سر شاخ تمنا نہیں رکھا ہم نے تو بہت صاف کیا آئنہ دل کا اس نے مگر آئینے میں چہرہ نہیں رکھا دیوار اٹھائی اگر الفاظ کی اس نے بھولے سے بھی معنی کا دریچہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اب چاند نہیں کوئی ستارہ نہیں کوئی

    اب چاند نہیں کوئی ستارہ نہیں کوئی شب اتنی اندھیری ہے کہ نکلا نہیں کوئی ہر چند نظر آتی ہے دیوار تمنا چاہیں کہ ٹھہر جائیں تو سایہ نہیں کوئی چہروں کو یہ غم ہے کوئی آئینہ نہیں ہے آئینہ ترستا ہے کہ چہرہ نہیں کوئی جس سے بھی ملو دیکھ کے رہ جاتا ہے منہ کو ایسا بھی نہیں ہے کہ شناسا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    آج یوں ہستیٔ امکان و گماں سے نکلے

    آج یوں ہستیٔ امکان و گماں سے نکلے ڈوب کر جیسے مکاں سیل رواں سے نکلے رت جگے بولنے لگتے ہیں مری آنکھوں میں روبرو حرف نہ جب کوئی زباں سے نکلے شاخ ہستی سے نہ اڑ جائے کہیں طائر جاں جب تلک تیر کسی شوخ کماں سے نکلے سب گلاب اپنے ہی لگتے ہیں چمن میں لیکن کوئی تو اپنا صف لالہ رخاں سے ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہئے راہ شوق کو کس طرح سر کیا

    کیا کہئے راہ شوق کو کس طرح سر کیا ہم نے سفر فضاؤں میں بے بال و پر کیا زلف اس کی ہو رہی تھی پریشاں ہواؤں میں ہم یہ سمجھ رہے تھے دعا نے اثر کیا پوچھو نہ کس طرح سے گزاری ہے زندگی مدھم سے اک دیے نے ہوا میں سفر کیا فاخرؔ گزر رہے ہیں ہم اس دور سے یہاں جس نے محبتوں کو بھی مرہون زر کیا

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2