کیا دن تھے گلابوں سے شناسائی تھی اپنی

کیا دن تھے گلابوں سے شناسائی تھی اپنی
آتش کا جواں ہونا بھی رسوائی تھی اپنی


مہتاب کی سانسوں میں توازن نہ رہا تھا
اس چاند نے اک رات جو چمکائی تھی اپنی


یہ عشق تو لگتا ہے کہ آسیب ہے کوئی
ہم نے تو طبیعت ذرا بہلائی تھی اپنی


اب ڈھونڈ کے لائے کوئی اور آئنہ جس میں
صورت ہمیں اک روز نظر آئی تھی اپنی


جاتے تو کہاں جا کے سکوں ڈھونڈتے فاخرؔ
محفل کوئی اپنی تھی نہ تنہائی تھی اپنی