کم نگاہی بھی ہے خاموشی بھی روپوشی بھی
کم نگاہی بھی ہے خاموشی بھی روپوشی بھی
کتنی معصوم ہے احسان فراموشی بھی
ہم سفر تو جو نہیں ہے تو یہ دھڑکا ہے ہمیں
تھک نہ جائے کہیں رستے میں وفا کوشی بھی
اب تو ہی رکھنا مرے پیراہن غم کا خیال
ہوش کی طرح سے رسوا نہ ہو بے ہوشی بھی
گھر میں رہئے تو سوا ہوتی ہے وحشت فاخرؔ
چیخنے لگتی ہے تنہائی میں خاموشی بھی