سیاہ رات پشیماں ہے ہم رکابی سے
سیاہ رات پشیماں ہے ہم رکابی سے
وہ روشنی ہے ترے غم کی ماہتابی سے
صبا کے ہاتھ ہے اب عزت نگاہ مری
چمن مہکنے لگا گل کی بے حجابی سے
فرار ان سے ہے مشکل وہ دسترس میں نہیں
یہ زرد زرد سے موسم وہ دن گلابی سے
لہو لہو نظر آتی ہے شاخ گل مجھ کو
کھلے وہ پھول تری تازہ انقلابی سے
عجب نہیں ہے کہ پا جائیں قافلے منزل
ہمارے نقش قدم کی ستارہ تابی سے
کوئی کتاب جو کھولیں تو کیا پڑھیں فاخرؔ
کھلیں نگاہ میں چہرے اگر کتابی سے