اک عمر سے جس کو لئے پھرتا ہوں نظر میں
اک عمر سے جس کو لئے پھرتا ہوں نظر میں
وہ روپ ہے سورج میں نہ وہ رنگ سحر میں
چلتی ہیں ہوائیں تو برس جاتی ہیں آنکھیں
چھائے ہیں تری یاد کے بادل مرے گھر میں
حیراں ہوئے جاتے ہیں مجھے دیکھنے والے
آئینہ معلق ہے مرے دیدۂ تر میں
اک چاند کو چھونے کی تمنا میں ہوں پاگل
بادل سا اڑا جاتا ہوں خوابوں کے سفر میں
موتی مری آنکھوں نے لٹا ڈالے ہیں فاخرؔ
خوش رنگ کوئی پھول کھلا جب بھی جگر میں