اب چاند نہیں کوئی ستارہ نہیں کوئی
اب چاند نہیں کوئی ستارہ نہیں کوئی
شب اتنی اندھیری ہے کہ نکلا نہیں کوئی
ہر چند نظر آتی ہے دیوار تمنا
چاہیں کہ ٹھہر جائیں تو سایہ نہیں کوئی
چہروں کو یہ غم ہے کوئی آئینہ نہیں ہے
آئینہ ترستا ہے کہ چہرہ نہیں کوئی
جس سے بھی ملو دیکھ کے رہ جاتا ہے منہ کو
ایسا بھی نہیں ہے کہ شناسا نہیں کوئی
ارمان تمہیں فصل گلستاں کا ہے فاخرؔ
شاخوں پہ یہاں پھول تو کھلتا نہیں کوئی