آنکھوں میں اس کی ڈوب کے ابھرا نہیں ہوں میں

آنکھوں میں اس کی ڈوب کے ابھرا نہیں ہوں میں
جس نے بھلا دیا اسے بھولا نہیں ہوں میں


اب لمحہ لمحہ اپنے بکھرنے کا خوف ہے
غنچے کی طرح بند ہوں کھلتا نہیں ہوں میں


پیچھے پلٹ کے دیکھا تو پرچھائیں بھی نہ تھی
سوچا تھا راہ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں


یہ سوچتا ہوں کیسے رہوں گا تمہارے ساتھ
اکثر تو اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں


فاخرؔ اسی گلی میں ملے گا دل خراب
لیکن اب اس گلی سے گزرتا نہیں ہوں میں