آج یوں ہستیٔ امکان و گماں سے نکلے

آج یوں ہستیٔ امکان و گماں سے نکلے
ڈوب کر جیسے مکاں سیل رواں سے نکلے


رت جگے بولنے لگتے ہیں مری آنکھوں میں
روبرو حرف نہ جب کوئی زباں سے نکلے


شاخ ہستی سے نہ اڑ جائے کہیں طائر جاں
جب تلک تیر کسی شوخ کماں سے نکلے


سب گلاب اپنے ہی لگتے ہیں چمن میں لیکن
کوئی تو اپنا صف لالہ رخاں سے نکلے


خانۂ دل میں اتارا تو ہے سورج فاخرؔ
کون روکے گا اگر دھوپ مکاں سے نکلے