چاندنی جس کی در جاں پہ ہم اکثر دیکھیں

چاندنی جس کی در جاں پہ ہم اکثر دیکھیں
کبھی اس چاند کو بھی ہاتھ سے چھو کر دیکھیں


کیسے بھر لیں در و دیوار پہ آویزاں ہیں
جس طرف دیکھیں تری یاد کا منظر دیکھیں


کبھی بارش کی بھی راتوں میں نہ چمکی بجلی
یہی ارمان رہا گھر کو منور دیکھیں


آنکھ کھل جائے تو صحرا کی زمیں پر ہوں قدم
نیند آ جائے تو خوابوں میں سمندر دیکھیں


ٹوٹ جانے کا بھی امکان بہت ہے اس میں
یوں کمانوں کی طرح آپ نہ کھنچ کر دیکھیں


شام ہوتے ہی نکل آتے ہیں تارے فاخرؔ
اک ستارے کا مگر راستہ شب بھر دیکھیں