آنکھوں کا بھی ہم سے کبھی پردہ نہیں رکھا

آنکھوں کا بھی ہم سے کبھی پردہ نہیں رکھا
ملنے کا بھی لیکن کوئی رستہ نہیں رکھا


وہ زخم دیے باد صبا نے کہ شجر نے
پتہ بھی سر شاخ تمنا نہیں رکھا


ہم نے تو بہت صاف کیا آئنہ دل کا
اس نے مگر آئینے میں چہرہ نہیں رکھا


دیوار اٹھائی اگر الفاظ کی اس نے
بھولے سے بھی معنی کا دریچہ نہیں رکھا


دنیا کے لئے باغ لگا ڈالے ہیں فاخرؔ
اپنے لئے اک شاخ کا سایہ نہیں رکھا