Afqar Mohani

افقر موہانی

  • 1887 - 1971

کلاسیکی روایت کے شاعر، اپنی شاعری میں تصوف کے مضامین کو بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ برتا

A poet of classical tradition, drew closely upon mystical poetry

افقر موہانی کی غزل

    وہ امنگیں نہیں اب وہ دل ناشاد نہیں

    وہ امنگیں نہیں اب وہ دل ناشاد نہیں واقعہ خواب سا کچھ یاد ہے کچھ یاد نہیں کون سے ذرہ پہ دنیائے غم آباد نہیں دل برباد ہمارا دل برباد نہیں وہ ہو دنیا کہ لحد یا کہ ہو روز محشر مبتلائے غم جاناں کہیں آزاد نہیں تو جو سرگرم تماشا ہو دم مشق ستم کس کو پھر شوق شہادت ستم ایجاد نہیں پاس ہے ...

    مزید پڑھیے

    صبا کو فکر ہے کعبہ نیا بنانے کی

    صبا کو فکر ہے کعبہ نیا بنانے کی کہ جمع کرتی ہے خاک ان کے آستانہ کی فلک کو ضد ہے نشیمن مرا مٹانے کی چمن میں دھن ہے مجھے آشیاں بنانے کی زمیں پہ لالہ و گل سے ہے ابتدائے بیاں شفق ہے آخری سرخی مرے فسانے کی اسی سے نکلے گا تعمیر کا بھی اک پہلو ضرور چاہیے تخریب آشیانے کی ہزار جلوۂ بے ...

    مزید پڑھیے

    سنی تو اس نے غیروں سے ہوا گو بد گماں ہم سے

    سنی تو اس نے غیروں سے ہوا گو بد گماں ہم سے بہر صورت رہی بہتر ہماری داستاں ہم سے زباں پر آئے گی کیا پاس ناموس محبت سے نہیں دہرائی جاتی دل میں اپنی داستاں ہم سے چنے تھے چار تنکے ایک دن صحن گلستاں میں رہا تا زندگی برہم مزاج باغباں ہم سے دہائی ہے غم مجبوریٔ امکاں دہائی ہے کہ پھرتی ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں خرد کی رہبری دیکھی نہیں جاتی

    محبت میں خرد کی رہبری دیکھی نہیں جاتی یہ توہین مذاق عاشقی دیکھی نہیں جاتی ہر اک تصویر کی جلوہ‌ گری دیکھی نہیں جاتی وہ صورت دیکھ کر پھر دوسری دیکھی نہیں جاتی بہار اچھی طرح گلشن میں آئی بھی نہیں لیکن اسیروں سے نظر صیاد کی دیکھی نہیں جاتی دل مضطر مرا پروردۂ آغوش طوفاں ہے خوشی ...

    مزید پڑھیے

    وعدۂ وصل یار نے مارا

    وعدۂ وصل یار نے مارا شدت انتظار نے مارا منفعل ہو کے یار نے مارا شکوۂ بار بار نے مارا نہ چھپا راز دل مگر نہ چھپا دیدۂ اشک بار نے مارا بن کے تقدیر راہ غربت میں جنبش چشم یار نے مارا وعدۂ بے وفا وفا نہ ہوا مجھ کو اس اعتبار نے مارا صدقے دل ایسی رازداری پر جس کو ہو رازدار نے ...

    مزید پڑھیے

    محشر کا اعتبار ہوا ہے کبھی کبھی

    محشر کا اعتبار ہوا ہے کبھی کبھی بے پردہ حسن یار ہوا ہے کبھی کبھی رقصاں جمال یار ہوا ہے کبھی کبھی پردہ میں انتشار ہوا ہے کبھی کبھی پہنچی ہے خاک عاشق برباد عرش پر اونچا اگر غبار ہوا ہے کبھی کبھی زاہد طواف کرتے ہیں اس آستاں کا ہم کعبہ میں جو شمار ہوا ہے کبھی کبھی پیماں شکن کے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ عجب یہ بارگاہ عشق کا دستور ہے

    کچھ عجب یہ بارگاہ عشق کا دستور ہے جتنا جو مختار ہے اتنا ہی وہ مجبور ہے موت پر قدرت ہے جینے کا نہیں مقدور ہے تو ہی درد دل بتا اب کیا تجھے منظور ہے ہو کے مختار اختیار خیر و شر سے دور ہے اتنی قدرت پر بھی انساں کس قدر مجبور ہے کتنا پر حیرت ہے منظر آستان یار کا دور سے نزدیک تر نزدیک سے ...

    مزید پڑھیے

    بس اتنی رہ گئی اہل وفا کی داستاں باقی

    بس اتنی رہ گئی اہل وفا کی داستاں باقی سر محشر بھی ہے ذکر جبین و آستاں باقی رہے گا آشیاں بھی گر رہے گا گلستاں باقی یہ ضد اب تو رہے گی عمر بھر اے باغباں باقی میں ہر نقش قدم پر جھوم کے سجدے میں گرتا ہوں رہے کیوں احترام کوچۂ پیر مغاں باقی مٹا سکتے نہیں حشر و قیامت بھی یہ دو ...

    مزید پڑھیے

    شیشہ میں ہے شراب تو شیشہ شراب میں

    شیشہ میں ہے شراب تو شیشہ شراب میں یعنی ہے آفتاب حد آفتاب میں سرزد ہوئے گناہ جو عہد شباب میں مالک مرے انہیں تو نہ رکھنا حساب میں عالم یہی رہا تو نگاہوں کا ذکر کیا نیت بھی ڈوب جائے گی جام شراب میں اے برق کیا ہمیں کو مٹانا چمن میں تھا تھا اور آشیاں نہ کوئی انتخاب میں افقرؔ یہ سب ...

    مزید پڑھیے

    دیدۂ محو مال ہے پیارے

    دیدۂ محو مال ہے پیارے کچھ عجب دل کا حال ہے پیارے زندگی اک وبال ہے پیارے موت تیرا وصال ہے پیارے میں تو خود ہی ہوں منفعل سر حشر تجھ کو کیوں انفعال ہے پیارے زخم تیر نگاہ سے دل کا تازہ ہر دم نہال ہے پیارے قصہ کوتاہ خانۂ دل میں تو ہے تیرا خیال ہے پیارے درد کا اپنی حد سے بڑھ جانا زخم ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4