Afqar Mohani

افقر موہانی

  • 1887 - 1971

کلاسیکی روایت کے شاعر، اپنی شاعری میں تصوف کے مضامین کو بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ برتا

A poet of classical tradition, drew closely upon mystical poetry

افقر موہانی کی غزل

    شراب پی کے بھی مست شراب ہو نہ سکا

    شراب پی کے بھی مست شراب ہو نہ سکا ترا خراب محبت خراب ہو نہ سکا اسی پہ ختم ہیں ناکامیاں زمانہ کی تری جناب میں جو کامیاب ہو نہ سکا تری عطا کے تصدق ترے کرم کے نثار گناہ گار تھا لیکن عذاب ہو نہ سکا وفور حسن کی وہ شوخیاں معاذ اللہ شباب تابع عہد شباب ہو نہ سکا خراب عشق ترا ہو کے ساری ...

    مزید پڑھیے

    آغاز محبت کا تو انجام نہیں ہے

    آغاز محبت کا تو انجام نہیں ہے یہ صبح وہ ہے جس کی کبھی شام نہیں ہے کیا دیکھتا ہے اپنے سوا دیکھنے والے آئینۂ دل جلوہ گہ عام نہیں ہے اللہ ری تقدیر کی ناکامی پیہم یوں بیٹھا ہوں اب جیسے کوئی کام نہیں ہے بے وجہ کیا قید اسیروں کو قفس میں صیاد کے سر پھر بھی تو الزام نہیں ہے مرنے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    عمر دو روزہ تابع ہجر و وصال ہے

    عمر دو روزہ تابع ہجر و وصال ہے اک دن اگر خوشی ہے تو اک دن ملال ہے مٹنے کا اپنے دل کے نہیں مجھ کو غم ذرا دنیا کے مٹنے کا مگر اب تو سوال ہے ساقی پلائے اور پھر اپنی قسم کے ساتھ اس طرح سے جہاں بھی ملے مے حلال ہے مانا نیاز عشق کا ہے خامشی جواب پھر بھی سوال اپنی جگہ پر سوال ہے پامال کیا ...

    مزید پڑھیے

    حجاب جسم و جاں میں حسن پنہاں دیکھ لیتے ہیں

    حجاب جسم و جاں میں حسن پنہاں دیکھ لیتے ہیں نظر والے تمہیں تا حد امکاں دیکھ لیتے ہیں اسیر زلف ہو کر روئے جاناں دیکھ لیتے ہیں سواد کفر میں بھی نور ایماں دیکھ لیتے ہیں زمانہ میرا حاصل ہے میں حاصل ہوں زمانہ کا جو اہل بزم ہیں محفل کا ساماں دیکھ لیتے ہیں ہمارے ڈوبنے کا واقعہ جب یاد ...

    مزید پڑھیے

    دل غنی ہے تو مفلسی کیا ہے

    دل غنی ہے تو مفلسی کیا ہے گھر میں اللہ کے کمی کیا ہے اک تلون ہے دو مزاجوں کا دوستی کیا ہے دشمنی کیا ہے ضد کی ہے اور بات اے ناصح ورنہ بات آپ کی بری کیا ہے حسن ہے بے نیاز جلووں سے چاند کیا جانے چاندنی کیا ہے جان کی شرط ہے محبت میں اتنی سی بات بات ہی کیا ہے ہر نفس یاد ہے تری اے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس کے آستانے کی زمیں معلوم ہوتی ہے

    یہ کس کے آستانے کی زمیں معلوم ہوتی ہے کہ جنبش میں مری لوح جبیں معلوم ہوتی ہے دو رنگی دیر و کعبہ کی نہیں معلوم ہوتی ہے حقیقت آشنا میری جبیں معلوم ہوتی ہے میں چاہوں بھی تو سنگ آستاں سے اٹھ نہیں سکتا کہ جزو آستاں اپنی جبیں معلوم ہوتی ہے دواں ہے کشتیٔ عمر رواں یوں بحر ہستی میں کہیں ...

    مزید پڑھیے

    خوشی جانتے ہیں نہ غم جانتے ہیں

    خوشی جانتے ہیں نہ غم جانتے ہیں جو ان کی رضا ہو وہ ہم جانتے ہیں جو کچھ چار تنکوں کو ہم جانتے ہیں وہ گلچین و صیاد کم جانتے ہیں تمہارے ہی جلووں کی ہم روشنی کو تجلیٔ دیر و حرم جانتے ہیں میں قاتل نہ محشر میں سمجھوں بھی تو کیا تمہیں سب خدا کی قسم جانتے ہیں مری خاک دل کا پتا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مکاں چھوڑ کر لا مکاں دیکھتے ہیں

    مکاں چھوڑ کر لا مکاں دیکھتے ہیں کہاں وہ ہیں اور ہم کہاں دیکھتے ہیں تعین کا ہر آستاں دیکھتے ہیں جہاں تم نہیں ہم وہاں دیکھتے ہیں اٹھا لیتے ہیں ہم بھی دو چار تنکے جو بنتے کوئی آشیاں دیکھتے ہیں قفس میں اسیروں پہ گرتی ہے بجلی چمن سے جو اٹھتے دھواں دیکھتے ہیں نہیں دیکھتے کچھ مگر ...

    مزید پڑھیے

    جوانی میں نظر کو تابع احکام ہونے دو

    جوانی میں نظر کو تابع احکام ہونے دو یہ اٹھ جائے جدھر اس سمت قتل عام ہونے دو اداؤں کو شریک گردش ایام ہونے دو جوانی میں کسی کی حشر کا ہنگام ہونے دو نظر کے ساتھ ہو جائے گا قائم دور مے خانہ ذرا گردش میں چشم ساقیٔ گلفام ہونے دو نظر آ جائے گا دنیا کو برق و طور کا عالم دم دیدار بے خود ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4