شیشہ میں ہے شراب تو شیشہ شراب میں
شیشہ میں ہے شراب تو شیشہ شراب میں
یعنی ہے آفتاب حد آفتاب میں
سرزد ہوئے گناہ جو عہد شباب میں
مالک مرے انہیں تو نہ رکھنا حساب میں
عالم یہی رہا تو نگاہوں کا ذکر کیا
نیت بھی ڈوب جائے گی جام شراب میں
اے برق کیا ہمیں کو مٹانا چمن میں تھا
تھا اور آشیاں نہ کوئی انتخاب میں
افقرؔ یہ سب ہیں ان کے تبسم کی شوخیاں
رنگینیاں جو بن گئیں موج شراب میں