محشر کا اعتبار ہوا ہے کبھی کبھی

محشر کا اعتبار ہوا ہے کبھی کبھی
بے پردہ حسن یار ہوا ہے کبھی کبھی


رقصاں جمال یار ہوا ہے کبھی کبھی
پردہ میں انتشار ہوا ہے کبھی کبھی


پہنچی ہے خاک عاشق برباد عرش پر
اونچا اگر غبار ہوا ہے کبھی کبھی


زاہد طواف کرتے ہیں اس آستاں کا ہم
کعبہ میں جو شمار ہوا ہے کبھی کبھی


پیماں شکن کے وعدہ کے ہم راہ اے اجل
تیرا بھی انتظار ہوا ہے کبھی کبھی


اک سجدہ وہ بھی بے خودیٔ اضطراب میں
اس آستاں پہ بار ہوا ہے کبھی کبھی


دامان تنگ و جوش بہاراں کو دیکھ کر
اندازۂ بہار ہوا ہے کبھی کبھی


وہ خود ہی راز بن گیا دنیا کے واسطے
جو اس کا رازدار ہوا ہے کبھی کبھی


جیسے وہ آئے بیٹھے بھی اٹھ کر چلے گئے
اس درجہ اعتبار ہوا ہے کبھی کبھی


وحدت پرستیوں سے بھی افقرؔ خدا گواہ
برہم مزاج یار ہوا ہے کبھی کبھی