Afqar Mohani

افقر موہانی

  • 1887 - 1971

کلاسیکی روایت کے شاعر، اپنی شاعری میں تصوف کے مضامین کو بھی بہت خوبصورتی کے ساتھ برتا

A poet of classical tradition, drew closely upon mystical poetry

افقر موہانی کی غزل

    شب فراق ہمارا وہ نیم جاں ہونا

    شب فراق ہمارا وہ نیم جاں ہونا اجل کا آپ ہی گھر میں وہ مہماں ہونا خفا نہ سن کے مرا حال مہرباں ہونا کہ اس بیان کو اک دن ہے داستاں ہونا دیار حسن کی سرگرمیاں معاذ اللہ ہر اک قدم پہ محبت کا امتحاں ہونا کوئی ستم ہو یہیں سے شروع ہوتا ہے غضب ہے کوچۂ جاناں کا آسماں ہونا اجل سے پہلے صبا ...

    مزید پڑھیے

    اجل نے لوٹ لیا آ کے کاروان حیات

    اجل نے لوٹ لیا آ کے کاروان حیات سنا رہا ہوں زمانہ کو داستان حیات ہزاروں کروٹیں بدلیں زمانہ نے لیکن اٹھے نہ خواب تغافل سے خفتگان حیات رہا نہ پیری میں جب کچھ بھی زندگی کا مزہ سحر کے وقت چلے اٹھ کے مہمان حیات رہ عدم کی وہ دشواریاں معاذ اللہ کہ مر کے پہنچے ہیں منزل پہ رہروان ...

    مزید پڑھیے

    سامنے اس بت کے جب جانا پڑا

    سامنے اس بت کے جب جانا پڑا کفر پر ایماں مجھے لانا پڑا بہر درماں ان کو جب آنا پڑا درد دل کو اور بڑھ جانا پڑا پھر بھی کب سمجھا فریب حسن کو دل کو لاکھوں بار سمجھانا پڑا جیتے جی دیدار جاناں تھا محال زندگی میں مجھ کو مر جانا پڑا کوئے جاناں کوچۂ جاناں تھا پھر جنت واعظ کو ٹھکرانا ...

    مزید پڑھیے

    موت کیا ختم حیات غم دنیا کرنا

    موت کیا ختم حیات غم دنیا کرنا حاصل زیست ہے مرنے کی تمنا کرنا قصۂ طور کا ہے مجھ کو اعادہ کرنا ایک بار اور کرم برق تجلیٰ کرنا جب کہ آتا ہے نظر تیرا ہی جلوہ ہر سو پھر تو بیکار نگاہوں سے ہے پردہ کرنا آبرو کھوئی سر بزم گرا کر آنسو چشم خوں بار کو لازم نہ تھا رسوا کرنا سیکھ لے ہم سے ...

    مزید پڑھیے

    ترے حسن نظر کا یہ بھی اک اعجاز ہے ساقی

    ترے حسن نظر کا یہ بھی اک اعجاز ہے ساقی کہ ہر مے کش زمیں پر آسماں پرواز ہے ساقی خیال اتنا رہے بس اپنے ساغر کی پلانے میں ترا انجام ہے ساقی مرا آغاز ہے ساقی کہیں باہم دگر ٹکرا نہ جائیں ساغر و مینا مئے سرجوش اس دم مائل پرواز ہے ساقی جبین شوق سجدہ کر کہاں کا پاس رسوائی خوشا وقتے کہ ...

    مزید پڑھیے

    شوق دل حسرت دیدار سے آگے نہ بڑھا

    شوق دل حسرت دیدار سے آگے نہ بڑھا میں کبھی جلوہ گہہ یار سے آگے نہ بڑھا محرم راز حقیقت اسے سمجھیں کیونکر عشق میں جو رسن و دار سے آگے نہ بڑھا ننگ ہے عشق میں راحت طلبی اے غافل توسن عمر غم یار سے آگے نہ بڑھا خلد کو ہم بھی سمجھتے ہیں مگر اے واعظ خلد کو کوچۂ دل دار سے آگے نہ بڑھا میں نے ...

    مزید پڑھیے

    سر کو چاہا بھی اٹھانا تو اٹھایا نہ گیا

    سر کو چاہا بھی اٹھانا تو اٹھایا نہ گیا کر کے سجدہ ترا پھر ہوش میں آیا نہ گیا جلوۂ طور کا ہو دیکھنے والا بے خود یہ بھی اک راز تھا اب تک جو بتایا نہ گیا تو نے کس ناز سے دیکھا تھا ازل میں ان کو آج تک ہوش میں دیوانوں سے آیا نہ گیا تا دم زیست نہ آیا مرے نامہ کا جواب نامہ بر مجھ کو برابر ...

    مزید پڑھیے

    جبین شوق اتنی تو شریک کار ہو جائے

    جبین شوق اتنی تو شریک کار ہو جائے جہاں سجدہ کروں میں آستان یار ہو جائے صبا برہم اگر زلف دراز یار ہو جائے قیامت کروٹیں لیتی ہوئی بیدار ہو جائے بنا دو جس کو تم مجبور وہ مجبور بن جائے جسے مختار تم کہہ دو وہی مختار ہو جائے تجھے معلوم کیا اے خواب ہستی دیکھنے والے وہی ہستی ہے ہستی جو ...

    مزید پڑھیے

    رکھی ہے حسن پہ بنیاد عاشقی میں نے

    رکھی ہے حسن پہ بنیاد عاشقی میں نے خوشی سے موت کو دے دی ہے زندگی میں نے کیا کبھی نہ سوا تیرے غیر کو سجدہ خراب شرک نہ کی رسم بندگی میں نے خدائی مل گئی سرکار عشق سے مجھ کو خودی کے بدلے طلب کی جو بے خودی میں نے چھلکتا ساغر مے پی کے چشم ساقی سے سکھائی سارے زمانہ کو مے کشی میں نے بہار ...

    مزید پڑھیے

    وحشت میں کوئی کار نمایاں نہ کر سکے

    وحشت میں کوئی کار نمایاں نہ کر سکے دامن کو جیب جیب کو داماں نہ کر سکے درد دروں کا وہ بھی تو درماں نہ کر سکے دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے تر خون دل سے ناوک جاناں نہ کر سکے ہم اتنی بھی تو خاطر مہماں نہ کر سکے کچھ ایسے جلد ختم ہوئے زندگی کے دن ہم اعتبار عمر گریزاں نہ کر سکے دریا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4