بس اتنی رہ گئی اہل وفا کی داستاں باقی
بس اتنی رہ گئی اہل وفا کی داستاں باقی
سر محشر بھی ہے ذکر جبین و آستاں باقی
رہے گا آشیاں بھی گر رہے گا گلستاں باقی
یہ ضد اب تو رہے گی عمر بھر اے باغباں باقی
میں ہر نقش قدم پر جھوم کے سجدے میں گرتا ہوں
رہے کیوں احترام کوچۂ پیر مغاں باقی
مٹا سکتے نہیں حشر و قیامت بھی یہ دو چیزیں
مرے سجدے رہیں گے اور ان کا آستاں باقی
نظر جلووں میں گم ہے اور جلوے گم نگاہوں میں
نہیں اب کوئی پردہ میرے ان کے درمیاں باقی
نہ پھونک ان کو خدا کے واسطے اے برق رہنے دے
انہیں دو چار تنکوں سے ہے نام آشیاں باقی
دیا ساقی نے اپنے سر سے صدقہ کرکے پیمانہ
نہ جب کوئی رہا جام شراب ارغواں باقی
ابھی ہونے کو ہے جن سے تقاضائے اجل پیہم
کچھ ایسے دن بھی ہیں منجملہ عمر رواں باقی
دم آخر وہ آنسو بھی گرا مژگاں سے بستر پر
جو اپنے درد دل کا رہ گیا تھا رازداں باقی
نہ مجھ سا بھی کوئی ہو خانماں برباد دنیا میں
کہ مر جانے پہ بھی ہیں سیکڑوں بربادیاں باقی
دم رخصت بس اتنی آرزو ہے اے چمن والو
ہمارے بعد بھی رکھنا خیال آشیاں باقی
جبین شوق میں ایسا بھی اک بیتاب سجدہ ہے
کہ ہے لغزش سے جس کی آبروئے آستاں باقی
بہار لالہ و گل ہو کہ ہو رنگ شفق افقرؔ
رہیں گی حشر تک خون وفا کی سرخیاں باقی