وعدۂ وصل یار نے مارا

وعدۂ وصل یار نے مارا
شدت انتظار نے مارا


منفعل ہو کے یار نے مارا
شکوۂ بار بار نے مارا


نہ چھپا راز دل مگر نہ چھپا
دیدۂ اشک بار نے مارا


بن کے تقدیر راہ غربت میں
جنبش چشم یار نے مارا


وعدۂ بے وفا وفا نہ ہوا
مجھ کو اس اعتبار نے مارا


صدقے دل ایسی رازداری پر
جس کو ہو رازدار نے مارا


غمزۂ جانستاں معاذ اللہ
شوخیٔ حسن یار نے مارا


بڑھ گیا اور بھی جنوں افقرؔ
آ کے فصل بہار نے مارا