صبا کو فکر ہے کعبہ نیا بنانے کی
صبا کو فکر ہے کعبہ نیا بنانے کی
کہ جمع کرتی ہے خاک ان کے آستانہ کی
فلک کو ضد ہے نشیمن مرا مٹانے کی
چمن میں دھن ہے مجھے آشیاں بنانے کی
زمیں پہ لالہ و گل سے ہے ابتدائے بیاں
شفق ہے آخری سرخی مرے فسانے کی
اسی سے نکلے گا تعمیر کا بھی اک پہلو
ضرور چاہیے تخریب آشیانے کی
ہزار جلوۂ بے رنگ صد متاع نظر
نہیں ہے حسن کو حاجت نقاب اٹھانے کی
کھلا یہ راز کہ تھیں کس قدر فریب نظر
اجل کے بھیس میں رنگینیاں زمانے کی
اسیرو کر لو نشیمن کا آخری ماتم
قفس میں آئی ہے خاک اڑ کے آشیانے کی
سنی تھی وسعت دنیا کی داستاں ہم نے
مگر ملی نہ جگہ آشیاں بنانے کی
یہ کہہ کے پلٹے ہیں دنیا کے دیکھنے والے
کہ یہ جگہ نہیں واللہ دل لگانے کی
بنا بہار میں اجڑا خزاں میں اے افقرؔ
حقیقت اتنی ہی بس اپنے آشیانے کی