وحشت میں کوئی کار نمایاں نہ کر سکے
وحشت میں کوئی کار نمایاں نہ کر سکے
دامن کو جیب جیب کو داماں نہ کر سکے
درد دروں کا وہ بھی تو درماں نہ کر سکے
دشواریٔ حیات کو آساں نہ کر سکے
تر خون دل سے ناوک جاناں نہ کر سکے
ہم اتنی بھی تو خاطر مہماں نہ کر سکے
کچھ ایسے جلد ختم ہوئے زندگی کے دن
ہم اعتبار عمر گریزاں نہ کر سکے
دریا میں غرق دیکھنے والے بھی ہو گئے
مجھ کو مگر حوالۂ طوفاں نہ کر سکے
جلووں کو دیکھتی رہی میری نگاہ شوق
کچھ بھی حریم ناز کے درباں نہ کر سکے
رہتے ہوئے قفس میں زمانہ گزر گئے
ترک خیال سیر گلستاں نہ کر سکے
سو حشر انتظار میں ہم پر گزر گئے
اور آئی ایک حشر کا ساماں نہ کر سکے
وہ سخت جان تھے کہ زمانے کے حادثات
شیرازۂ حیات پریشاں نہ کر سکے
ہم ایسے جا کے بے خود احساس ہو گئے
اندازۂ کشاکش زنداں نہ کر سکے
بدنام کر دیا مجھے افقرؔ زمانے میں
اخفائے راز دیدۂ گریاں نہ کر سکے