جبین شوق اتنی تو شریک کار ہو جائے

جبین شوق اتنی تو شریک کار ہو جائے
جہاں سجدہ کروں میں آستان یار ہو جائے


صبا برہم اگر زلف دراز یار ہو جائے
قیامت کروٹیں لیتی ہوئی بیدار ہو جائے


بنا دو جس کو تم مجبور وہ مجبور بن جائے
جسے مختار تم کہہ دو وہی مختار ہو جائے


تجھے معلوم کیا اے خواب ہستی دیکھنے والے
وہی ہستی ہے ہستی جو نثار یار ہو جائے


جو ہو جائے یقیں آئیں گے وہ رسم عیادت کو
نہ ہو بیمار بھی کوئی تو وہ بیمار ہو جائے


گزر جائے حدود معرفت سے طالب جلوہ
جو بے پردہ کسی ساعت جمال یار ہو جائے


حکومت ہے جنوں پر ہست منشا تیرے وحشی کی
ابھی دیوانہ بن جائے ابھی ہشیار ہو جائے


فقط اتنی اطاعت چاہتی ہے رحمت یاری
کہ انساں کو گنہ کا اپنے بس اقرار ہو جائے


اسی کو کامیاب دید کہتے ہیں نظر والے
وہ عاشق جو ہلاک حسرت دیدار ہو جائے


نہ ہوگی ختم پھر بھی کشمکش شیخ و برہمن کی
اگر ہم رشتۂ تسبیح بھی زنار ہو جائے


سمجھ لینا وہیں عمر رواں کی آخری منزل
جہاں پر ختم افقرؔ جستجوئے یار ہو جائے