رکھی ہے حسن پہ بنیاد عاشقی میں نے

رکھی ہے حسن پہ بنیاد عاشقی میں نے
خوشی سے موت کو دے دی ہے زندگی میں نے


کیا کبھی نہ سوا تیرے غیر کو سجدہ
خراب شرک نہ کی رسم بندگی میں نے


خدائی مل گئی سرکار عشق سے مجھ کو
خودی کے بدلے طلب کی جو بے خودی میں نے


چھلکتا ساغر مے پی کے چشم ساقی سے
سکھائی سارے زمانہ کو مے کشی میں نے


بہار گور غریباں نہ کیوں لحد ہو مری
کہ جمع کی ہے زمانہ کی بیکسی میں نے


بدل کے رنگ ڈرائے نہ آسماں مجھ کو
مزاج یار کی دیکھی ہے برہمی میں نے


بتا کے عیب و ہنر شعر گوئی کے افقرؔ
سکھائی اپنے حریفوں کو شاعری میں نے